اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سبحان اللہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ اے علی ! کون سے لوگ جلدی مر جاتے ہیں ۔ اورکون سے دیر سے مرتے ہیں؟ تو سوال کے جوا ب میں حضرت امام علی ؑ نے فرمایا۔
اے شخص ! جو اپنی نگاہوں کو ادھر ادھر پھیرتا رہتا ہے۔ دنیاوی خواہشات اور لذت کے پیچھے بھا گتا رہتا ہے۔ تو وہ اپنی مو ت کو اپنی طرف مائل کرتا ہے۔ بیماریوں اور پریشانیوں میں گر کر مر جاتا ہے۔ لیکن جو انسان اپنی نگاہیں جھکا کر چلتا ہے اور اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا ہے۔ اور اللہ کی رضا پر راضی رہ کر تکلیف میں صبر اور نعمتوں پر شکر ادا کرتا رہتا ہے۔ تو وہ انسان اپنی ہلا کت سے دیر تک بچا رہتا ہے۔ ایک موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت اور ان کی شخصیت کی وسعت کے حوالےسے لکھتا ہے کہ ان کا پورے جہان سے روحانی تعلق ہے۔ علی سب کے دوست ہے۔ ان کی مو ت پیغمبروں کی مو ت ہے۔ دوسرا محقق لکھتا ہے۔ کہ علی ؑ روح بیان میں ایک لامتناہی سمندر کی مانند ہے۔ اور ان کی یہ صفت ہر زمان اور ہرمکان میں ہے۔ امام علی ؑ تمام بزرگ انسانوں کے بزرگ ہیں۔ اور ایسی شخصیت ہیں۔ کہ دنیا نےمشرق ومغرب میں زمانہ گذشتہ اور حال میں آپ کی نظیر نہیں دیکھی۔ ایک تاریخ دان تھامس کال رائل لکھتا ہے ۔ ہم علی کو اس سے زیادہ نہیں جان سکے کہ ہم ان کو دوست رکھتے ہیںَ اور ان کی عشق کی حد تک چاہتے ہیں۔ وہ کس قدر جواں مرد ، بہادر اور عظیم انسان تھے۔ ان کے جسم کے ذرے ذرے سے مہربانی اور نیکی کے سرچشمے پھوٹتے تھے۔ ان کے دل سے قوت بہادری کے نورانی شعلے بلند ہوتے تھے۔ وہ دھاڑتے ہوئے شیر سے بھی زیادہ شجاعت تھے ۔ لیکن ان کی شجاعت میں مہربانی اور لطف وکرم کی آمیزش تھی ۔