اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ایک زمانہ تھا ڈا کو بھی آعلیٰ ظرف ہوا کرتے تھے۔ایک مارننگ شو میں بیگم بلقیس ایدھی سے سوال کیا گیا کے اپنی زندگی کا کوئی دلچسپ واقعہ سنائیں بلقیس ایدھی نے ہنستے ہوئے بتایا کہ ایک دفعہ وہ اور ایدھی صاحب ایک پرائیویٹ کار پر ایک شادی پر سکھر جا رہے تھے۔
رات کا وقت تھا اندرون سندھ سے گزرتے ہوئے ایک مقام پر کچھ ڈاکو راستے میں آ گئے اور ہماری گاڑی روڈ سے اتار کر کچے میں لے گئے وہاں پہلے سے کچھ گاڑیاں کھڑی تھیں اور ڈاکو لوٹ مار میں مصروف تھےتھوڑی دیر میں ایک ڈاکو ہماری طرف آیا اور ڈرائیور اور ایدھی صاحب کو باہر نکلنے کا کہا ان دونوں کی تلاشی لی اور جیب خالی کرا لی اچانک اس ڈاکو کی نظر ایدھی صاحب پر پڑی اور غور سے ان کو دیکھنے کے بعد ایک ڈاکو جلدی سے ایک جانب کھڑی جیپ کی طرف گیا اور ایک شخص کے ساتھ جلدی واپس آ گیا اس شخص نے ٹارچ کی روشنی ایدھی صاحب کے چہرے پر ڈالی اور پوچھا آپ عبدالستار ایدھی ہیں جواب ہاں پر ملا تو وہ ڈاکو کا سردار ایک دم پریشان ہو گیا فوری حکم ہوا کہ تمام گاڑیاں جن سے لو ٹ مار کی گئی ہے ان کو مال واپس کیا جاۓ اور باقاعدہ طور پر وہ شخص ایدھی صاحب کے ہاتھ چوم کر معافی مانگنے لگا مزید حیرت کی بات یہ ہوئی کہ جب وہ ڈا کو ہمیں رخصت کرنے لگا تو 20 لاکھ روپے بطور چندہ ایدھی صاحب کے حوالے کیا. ایدھی صاحب کے انکار پر بولا سر جب میرے جیسے گنہگار پولیس مقا۔بلے میں ما رے جاتے ہیں تو ہمارا کوئی رشتے دار ہماری باڈی تک نہیں وصول کرتا اور ایدھی ہی ہماری باڈی کو دفناتا ہے ۔