اگر روزگار میں برکت چاہیے تو دکان کے بورڈ پر سے یہ لائن ہٹا دو… جنید جمشید پاکستانی کاروبار کے ڈوبنے اور غیر مسلموں کے عروج کی کیا وجہ بتاتے تھے؟

اللہ اکبر ۔۔۔۔ جنید جمشید ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں ایک دکان میں پہنچا جہاں لکھا ہوا تھا کہ “خریدا ہوا مال واپس نہیں کیا جائے گا” لیکن میں وہاں سے ایک چیز خریدتا ہوں لیکن دکان دار مجھے پہچان جاتا ہے اور کہتا ہے آپ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ میرے کاروبار میں برکت دے۔

میں اسے کہتا ہوں کہ اللہ تمھارے کاروبار میں برکت دے گا اگر تم اوپر لگا ہوا بورڈ پر لکھا یہ جملہ (خریدا ہوا مال واپس نہیں کیا جائے گا) ہٹا دو تو۔ دکان دار کہتا ہے کہ یہ تو نہیں ہٹ سکتا تو میں جواب دیتا ہوں کہ پھر وہ بھی نہیں ہوسکتا جو تم چاہتے ہو-مقبول ترین برانڈز کی بات کی جائے تو باہر کے ملکوں کے برانڈز کا نام سب سے اوہر آتا ہے۔ ٹماٹو کیچپ سے لے کر کپڑے اور جوتے یا بیگز کے لئے بھی لوگ بین الاقوامی برانڈز کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ جس کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں۔ پاکستان میں کاروبار شروع کرنے والا شخص اپنے کاروبار کو دنیا تک پہنچانے کا خواب تو دیکھتا ہے لیکن اس خواب کو پورا نہیں کرپاتا۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ کوئی پاکستانی دنیا کے کسی مشہور برانڈ کا مالک نہیں؟ آخر ایسا کیا خاص ہے مغرب میں جو وہ اتنے کامیاب ہیں۔ آئیے اس موضوع کو مرحوم جنید جمشید کے سمجھائے گئے اصولوں کی مدد سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔مغرب کی مثال جنید جمشید اپنی وڈیو میں پاکستان اور مغرب کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے دو مثالیں دیتے ہیں۔ جس میں مغرب کی مثال دیتے ہوئے۔

وہ وہاں کے تاجروں کے حسنِ اخلاق کی تعریف کرتے ہیں اور ایک اہم چیز کی جانب نشان دہی کرتے ہیں کہ وہاں خریدی ہوئی چیز واپس کرنا اتنا آسان ہے۔ کہ کوئی گاہک چاہے تو مغربی دکانداروں کو ان کی اچھی چیز استعمال کرکے بھی واپس کرسکتا ہے جس سے ان دکانداروں کو وقتی طور پر نقصان ہوتا ہے۔ لیکن وہ لوگوں کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور یہ چیز ان کو دنیا بھر میں ایک بااعتماد ادارے کے طور پر نمایاں کرتی ہے۔ پاکستان کی مثال۔جبکہ پاکستان کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہاں اگر خریداری کرنے جاؤ تو پہلے تو دکاندار کی کوشش ہوگی کے خریدار کی پوری جیب ہی خالی کرادے۔ وہ مختلف جذباتی حربے آزمائے گا کبھی کہے گا بھابھی کے لئے فلاں چیز لے جائیں یا بچوں کو فلاں چیز بہت اچھی لگے گی وہ خرید لیں۔ غرض وہ ہر ایسی بات کہے گا جس سے دکاندار زیادہ سے زیادہ خریداری کرے۔ لیکن اگر کل وہی گاہک کچھ واپس کرنے آئے گا تو دکان دار اپنی آنکھیں ماتھے پر رکھ لے گا اور اس کی پوری کوشش ہوگی کہ اسے پیسے واپس نہ کرنے پڑیں یا پھر چیز بدلنی نہ پڑے۔ اور یہی وہ باتیں ہیں جس کی وجہ سے وہ وقتی فائدہ تو حاصل کرلیتا ہے لیکن لوگوں کا اعتماد کھو دیتا ہے۔

Leave a Comment