کتنی عجیب بات ہے کہ درد دینے والا زندگی بھر کا درد دے کر چلا جاتا ہے پھر بھی ہم درد میں اسی کو ڈھونڈ تے رہتے ہیں کہ شاید دوبارہ آجائے ہمارا درد ختم ہوجائے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ دنیا میں پاؤں گیلے کیے بنا سمندر کو پار کیا جاسکتا ہے۔ مگر آنکھیں گیلی کیے بنا محبت کو پار نہیں کیا جاسکتا۔ اب چاہے وہ محبت اللہ سے ہو انسان سے ۔ محبت کرو تو آداب وفا بھی سیکھو فارغ وقت کی بے اقراری محبت نہیں ہوتی۔ محبت کسی ایسے شخص کی تلاش نہیں جس کے ساتھ رہا جائے ، محبت تو ایسے شخص کی تلاش ہے جس کے بغیر نہ رہا جائے۔خوشی اس عینک کی طرح ہے ۔ جسے ایک بڑھیا بڑی دیر تک تلاش کرتی رہتی ہے۔
اور آخر میں اس کو اپنی آنکھوں پر لگی ملے۔ دکھ ایک دھکا ہوتا ہے جو کسی کو گمراہی کے تالاب میں گرا دیتا ہے تو کسی کو اللہ کے قدموں میں لاڈ التا ہے۔ موت کو موسم ہے نئی وباآئی ہے۔ سانس لینے پر بھی اک سزا آئی ہے ۔ جان نہیں چھوڑتی جان جانے تک عشق تیرے ٹکر کی اک بلا آئی ہے۔ پیار جب جب زمین پر اتارا گیا زندگی تجھ کو صدقے میں وار گیا ، پیار زندہ مقتولوں میں مگر پیا جس نے کیا ہے وہ مارا گیا۔ طوائف سے پوچھی جو وجہ جسم فروشی کی؟ بولی کرکے محبت پر یقین اپنا گھر چھوڑ دیا۔محبت اور عبادت بتائی نہیں جاتی بس کہ جاتی ہیں۔ بے وفائی انسان کو مارنے نہ مارے ، بے پرواہی ضرور مار دیتی ہے۔ بے وفائی اہمیت کے ختم ہونے کا اور بے پرواہی اہمیت کے کم ہونے کا نام ہے۔ انسان کی فطرت ہے وہ خاتمہ برداشت کرلیتا ہے کمی نہیں۔ ہوسکتا ہے سچ بولنے سے آپ کے زیادہ دوست نہ بنیں لیکن جو بنیں گے وہ سچے دوست ہوں گے۔ کسی کو اتنا پیار دو کہ گنجائش نہ چھوڑو ۔ اگر وہ پھر بھی تمہارا نہ بن سکے تو اسے چھوڑو دو کیونکہ وہ محبت کا طلبگار ہی نہیں تھا، بلکہ وہ ضرورت کا پچاری ہے۔ گلاب کو کوئی نام رکھ دیا جائے لیکن اس کی پہچان ان خوشبو ہی رہے گی ،انسان کا کوئی بھی رنگ وروپ ذات یا قبیلہ ہو مگر اس کی پہچان اس کے کردار اور اخلاق سے ہوگی۔ نسلی بکری کانوں سے پہچانی جاتی ہے۔ اور خوبصورت لڑکی پاؤں سے پہچانی جاتی ہے۔