لاہور (ویب ڈیسک) جہاں تک جغرافیائی بندھن کا تعلق ہے تو انڈیا اور پاکستان بعض قدرتی اور فطرتی وابستگیوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک ملک چاہے بھی تو وہ اس بندھن کو توڑ نہیں سکتا۔ مثال کے طور پر ہم کوہ ہمالہ کو ایک جگہ سے اٹھا کر کسی دوسری جگہ نہیں لے جا سکتے۔نامور کالم نگار ااور سابق اعلیٰ فوجی افسر لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہی حال دریاؤں کا بھی ہے۔ ہمارا سب سے بڑا دریا، دریائے سندھ ہے۔ وہ چین کے علاقے سطح مرتفع تبت سے نکلتا ہے، انڈیا کے زیر تسلط علاقے لداخ میں داخل ہوتا ہے اور وہاں سے پاکستان میں داخل ہو کر گلگت سے گزرتا، بشام اور تھاکوٹ سے ہوتا ہوا اٹک میں آتا ہے
اور وہاں سے مٹھن کوٹ کے مقام پر پنجند سے ہوتا کراچی کا رخ کرتا اور بحیرۂ عرب میں جا گرتا ہے۔ یہ دنیا کے عظیم اور طویل ترین دریاؤں میں سے ایک دریا ہے۔ لیکن شاید بہت سے قارئین کو معلوم نہیں کہ اس کا منبع (Source) ایک اور بڑے دریائے کا منبع بھی ہے جسے برہم پتر کا نام دیا جاتا ہے۔ اور اس کا شمار بھی دنیا کے بڑے دریاؤں میں ہوتا ہے۔ یہ تبت سے ہوتا ہوا، انڈیا (ارونا چل پردیش) میں داخل ہوتا ہے اور پھر وہاں سے بنگلہ دیش میں داخل ہو کر خلیج بنگال میں جا گرتا ہے۔(نقشہ دیکھئے)ان دونوں عظیم دریاؤں (سندھ اور برہم پتر) کے منبع کا نام جھیل مانسرور (Mansarovar) ہے جس کو ہم سکول کے زمانے میں سرور (بروزن بھنبھور) نہیں بلکہ سروَر (بروزن زرگر) تلفظ کیا کرتے تھے۔ طالب علمی ہی کے اس زمانے کا ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ ہمارے ایک کلاس فیلو کا نام محمد سرور تھا۔ جب کلاس ہفتم میں ٹیچر نے ہندوستان کے بڑے بڑے دریاؤں کے نام بتائے تو ان میں ایک دریائے برہم پتر بھی تھا جس کا معنیٰ خدا کا بیٹا (برہم کا پتر) بتایا گیا اور جب یہ کہا کہ یہ دریا، جھیل مان سرور سے نکلتا ہے
تو ہم نے محمد سرور کو یہ کہہ کر تنگ کرنا شروع کر دیا کہ ”سرور کی ماں (مان سرور) سے خدا کا بیٹا (برہم پتر) نکلتا یا پیدا ہوتا ہے“……تفنّن برطرف، تبت کی اسی جھیل مانسرور سے دریائے سندھ بھی نکلتا ہے اور دریائے برہم پتر بھی۔ یہ جھیل، اقصائے چین کے کوہستانی علاقوں سے نکل کر آنے والے پانیوں سے لبریز ہوتی ہے۔ پھر اس میں سے ایک دریا (سندھ) مغرب کو نکل کر لداخ میں چلا جاتا ہے اور دوسرا (برہم پتر) تبت سے ہوتا مشرق کی طرف بہتا ساؤتھ چائنا سمندر سے کچھ میل پیچھے اچانک جنوب کی طرف مڑتا ہے اور اروناچل پردیش میں داخل ہو جاتا ہے، پھر وہاں سے بنگلہ دیش اور پھر خلیج بنگال میں جا گرتا ہے۔قارئین گرامی! میں نے یہ تمہید اس لئے باندھی ہے کہ آپ کو بتا سکوں کہ اگر انڈیا، پاکستان کا دریائی پانی روکنے سے باز نہ آیا اور اس نے چناب اور جہلم کی اَپ سٹریم (up stream) میں ڈیم بنا کر پاکستان کو دریائی پانیوں سے محروم کر دینے کی پالیسی پر عمل کیا یا مون سون کے موسم میں ہمارے ان دریاؤں میں فالتو پانی چھوڑ کر فلیش فلڈ پیدا کرنے کی کوشش کی تو اس کا جواب پاکستان کے پاس تو نہیں ہے کہ ہم اپنا جغرافیہ تبدیل نہیں کر سکتے۔
اور جغرافیہ یہ ہے کہ ہم ڈاؤن سٹریم میں ہیں اور انڈیا کے یہ دونوں دریا اَپ سٹریم میں ہیں …… البتہ اس زیادتی کا بدلہ چین لینے کا بندوبست کر رہا ہے۔ وہ دریائے برہم پتر پر اپنے علاقے تبت میں اس عظیم دریا کا پانی روکنے یا اس کو یکدم چھوڑنے کے لئے اروناچل پردیش سے اوپر گیارہ چھوٹے بڑے ڈیم بنانے کا پلان رکھتا ہے۔ ان میں سے تین ڈیم بن چکے ہیں اور باقی آٹھ زیر تعمیر ہیں …… سطور ذیل میں انہی ڈیموں کے بارے میں قارئین کو آگہی دینا مقصود ہے۔ برہم پتر، جب تک چینی علاقے میں بہتا ہے اس کا نام ’یارلنگ‘ (Yarlung) ہے اور جب اروناچل پردیش میں داخل ہوتا ہے تو اسے ’برہم پتر‘ کا نام دیا جاتا ہے۔اروناچل پردیش کے عین شمال میں چین نے اپنے علاقے (تبت میں) 3ڈیم تعمیر کر لئے ہیں۔ یہ تین ڈیم ایک دوسرے سے صرف 24کلومیٹر (16میل) کے فاصلے پر بنائے گئے ہیں اور صرف 10برس کی ریکارڈ مدت میں ان کی تعمیر مکمل کی گئی ہے۔ان ڈیموں کی اصل (Actual) لوکیشن بھوٹان کے شمال مشرق اور لہاسہ کے جنوب میں ہے جو تبت کا سب سے بڑا شہر اور صوبائی دارالحکومت بھی ہے۔ ایسی بات بھی نہیں ہے کہ انڈیا ان ڈیموں کی لوکیشن سے بے خبر ہے۔
اس کے سیٹلائٹ 24گھنٹے ان علاقوں کی تصاویر اتارتے رہتے اور اپنے گراؤنڈ کنٹرول سنٹر کو ارسال کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انڈیا، اس مرض کا کوئی علاج نہیں کر سکا۔ اس نے چین سے ایک معاہدہ یہ بھی کر رکھا ہے کہ چین دریائے برہم پتر (یارلنگ) پر جب بھی کوئی نیا ڈیم تعمیر کرے گا تو بین الاقوامی قوانین کی رو سے اس دریا کے ڈاؤن سٹریم علاقوں کو مطلع رکھے گا تاکہ اگر اچانک فلیش فلڈ کا خطرہ ہو تو ڈاؤن سٹریم ملک (انڈیا) اس کا سدباب کر سکے اور سیلاب کی زد میں آنے والی آبادیوں کو محفوظ مقامات پر بروقت منتقل کر سکے۔ اس اطلاع کے لئے انڈیا ہر سال چین کو ایک مقررہ رقم (80لاکھ روپے انڈین کرنسی میں) ادا کرتا ہے۔ چین ہر سال یہ رقم انڈیا سے وصول تو کر لیتا ہے لیکن جب انڈیا ٹیلی میٹری سسٹم کے ذریعے لگائے گئے آلات کی تصاویر، چین سے طلب کرتا ہے تو چین ہر بار یہ کہتا ہے کہ اچانک سیلابی کیفیت ان آلات کو بہا لے گئی……اللہ اللہ خیر سلا!دریائے برہم پتر میں پانی کی کمی بیشی کی یہ کیفیت چونکہ چین کے ہاتھ میں ہے اس لئے انڈیا اس محتاجی سے ہمیشہ پریشان رہتا ہے۔
جو تین ڈیم چین بنا چکا ہے ان کے ایک پرانے ڈیم کا نام زانگ مو ڈیم ہے۔اس کالم میں اتنی گنجائش نہیں کہ اس کا طول و عرض یا گہرائی وغیرہ دکھائی جا سکے۔ چنانچہ جو قارئین سمارٹ فون اور انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں وہ خود اس ڈیم کے علاوہ باقی تین نئے ڈیموں کی لوکیشن بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تصاویر سیٹلائٹ سے اتاری گئی ہیں اور رنگین ہیں اور دیکھی جا سکتی ہیں۔ 2012ء میں اس ڈیم کی چوڑائی صرف 100میٹر تھی لیکن تازہ ترین تصاویر (جو اگست2020ء میں) اتاری گئیں ان میں یہ چوڑائی 400میٹر ہے۔ اور اس ڈیم کا واٹر لیول بھی 150میٹر بلند ہو چکا ہے۔ یہ ڈیم 10کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور 600ملین کیوبک میٹر (فٹ نہیں) پانی اس ڈیم میں ذخیرہ کیا جا سکتا ہے…… اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چین جب چاہے اس ڈیم سے پانی چھوڑ کر ارونا چل پردیش اور اس کی آبادیوں کو وسیع و عریض سیلابی صورتِ حال سے دوچار کر سکتا ہے…… اگر انڈیا پاکستان کے دریاؤں میں فالتو پانی چھوڑنے سے باز نہ آیا تو چین کی دھمکی بھی وہی کام کر سکتی ہے جو اس نے حال ہی میں لداخ میں کیا ہے اور آج بھی کر رہی ہے۔
اس دریا پر تعمیر کئے گئے دو ڈیموں کے نام پنگسم اور نیانگ ہیں۔ان تعمیر شدہ ڈیموں کے علاوہ 8مزید ڈیم اور بھی بنائے جا رہے ہیں جن کی مدت تکمیل 10برس ہے۔ یعنی 2030ء تک چین،پورے دریائے یارلنگ (برہم پتر) کا پانی کنٹرول کر سکے گا!…… اسی لئے تو وزیراعظم عمران خان نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ پاکستان کا مستقبل چین سے وابستہ ہے!اگر انڈیا دریائی پانی کی سپلائی کو پاکستان کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کا خیالِ خام کسی گوشہ ء دماغ میں پال رہا ہے تو اسے وہ خیال دماغ سے نکال دینا چاہیے…… سطور بالا میں Zangmo ڈیم کا ذکر ہو چکا۔ یہ ڈیم جس گاؤں پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کا نام گائی آٹسا (Gyatsa) ہے اور وہاں کی آبادی صرف 150گھروں پر مشتمل ہے۔ انڈیا کے ماہرین حیران ہیں کہ ان ڈیموں پر جو بڑے بڑے بجلی گھر تعمیر کئے گئے ہیں ان کی بجلی کہاں استعمال کی جائے گی…… کیا لہاسہ کے اردگرد کوئی نئی بستیاں بسانے کا منصوبہ زیرِ غور ہے یا اس کے نواح میں کوئی فوجی چھاؤنی بنائی جائے گی یا ان علاقوں میں فضائی مستقر تعمیر کئے جائیں گے؟میں نے گزشتہ کالموں میں ختن (Hotan) اور کاشغر کی فضائی بیس اور ہوائی اڈے کا ذکر کیا تھا جس میں چین اپنے اس طیارے کے سکواڈرن سٹیشن کرے گا جس کو اس نے J-20Bکا نام دیا ہے اور جو ایف۔16اور رافیل کو پیچھے چھوڑ کر امریکی F-35سے بھی آگے نکل کر پانچویں نسل کا فائٹر بننے جا رہا ہے…… اور یہ ٹیکنالوجی پاکستان کو بھی منتقل کی جا رہی ہے