یا الٰہی خیر : کئی حکومتیں دیکھیں مگر طاقت کا بے دریغ استعمال کرنے والے عمران خان کے بارے میں ،میں یقین سے پیشگوئی کر سکتا ہوں کہ ۔۔۔۔ مجیب الرحمان شامی نے دل کی بات کہہ دی

یحییٰ خانی اقتدار نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں بھارتی فوج کے سامنے ”سرنڈر“ کیا، تو ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے بھی کورنش بجا لانا پڑی کہ بچے کھچے پاکستان کی حمیت ہتھیار ڈالنے والے اقتدار کو برداشت کرنے پر تیار نہ تھی۔ لوگ بے قابو ہو گئے تھے۔ نامور کالم نگار مجیب الرحمان شامی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔خواہی نخواہی بھٹو صاحب کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا کر ”نئے پاکستان“ کے تخت پر بٹھا دیا گیا۔

بھٹو اقتدار کو اپنی کمزوری کا اچھی طرح علم تھا، کہ بڑے بھائی کی موت نے یہ گد ّی اسے بخشی ہے۔اس لیے اول اول تو اپوزیشن سے حُسن ِ سلوک کا خوب مظاہرہ ہوا۔ اتفاق رائے سے دستور بھی بنا ڈالا گیا، لیکن جوں جوں وقت گذرا، پاؤں جمے،جوہر کھلتے گئے اور اپوزیشن کو تہہ تیغ کرنے کی کارروائیاں انتہا کو چھونے لگیں۔ بلوچستان اور صوبہ سرحد (آج کا خیرپختونخوا) کی نمائندہ سیاسی جماعت، نیشنل عوامی پارٹی کو نشانے پر رکھ لیا گیا۔ نیپ کو خلاف قانون قرار دے کر اس کے قائدین کو حوالہ ئ زنداں کر دیا گیا۔ ایک خصوصی ٹربیونل ان پر غداری کے الزامات کی سماعت کے لئے مقرر ہو گیا۔ حیدرآباد قید خانے میں کارروائی جاری تھی، کوشش تھی کہ ملزمان کو تختہ ء دار پر چڑھایا جائے یا کم از کم عمر قید کی سزا دلوا کر قید میں گلنے سڑنے کے لئے چھور دیا جائے۔ کئی اپوزیشن رہنما نشانہ بنا ڈالے گئے۔ سمجھا یہ جا رہا تھا کہ چین کی بانسری بجے گی اور دستور میں مرضی کی ترمیمات کر کے ”صدارتی نظام“ قائم کیا جا سکے گا۔بااثر شخصیات جوق در جوق پیپلزپارٹی کا رُخ کر رہی تھیں،اپوزیشن بٹی اور پسی ہوئی تھی۔ ایک طرف کئی جماعتوں کا مجموعہ متحدہ جمہوری محاذ تھا

تو دوسری طرف ایر مارشل اصغر خان اور مولانا نورانی تھے،ان کا جھنڈا اپنا تھا۔ ایر مارشل اپوزیشن سیاست کی سب سے توانا آواز اور سب سے روشن چہرہ تھے، موقع غنیمت جان کر اور وقت ِ مقررہ سے ایک سال پہلے ہی عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کر دیا۔ خیال تھا کہ حریفوں کو عبرتناک شکست ہو گی، اور بھٹو صاحب ہنستے ٹہلتے نیا مینڈیٹ حاصل کر کے مزید من مانیاں کر سکیں گے۔کرنا خدا کا کہ جونہی انتخابات کا اعلان ہوا، تمام مخالف جماعتیں یک جا ہو گئیں۔ ایجنسیاں گھبرا کر حرکت میں آئیں کہ ایر مارشل اصغر خان اتحاد کے سربراہ نہ بننے پائیں۔ان کا خیال تھا کہ مفتی محمود آگے آئیں گے تو ان کی ”مولویت“ اپوزیشن کے راستے کی دیوار بن جائے گی،اسے بین الاقوامی پذیرائی ملے گی،نہ قومی۔ لوگ ”مولوی“ کے مقابلے میں بھٹوچہرہ اپنے چہرے پر سجانے کو ترجیح دیں گے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے، پی این اے الیکشن تو ہار گئی لیکن اس نے جو مذہبی جوش و خروش پیدا کیا، وہ منہ زور اقتدار کی کشتی ڈبو گیا۔بھٹو جیسا زیرک شخص جس کی تاریخ پر گہری نظر تھی، پوزیشن کو حرف غلط سمجھ کر مٹانے کی کوشش میں خود مٹ گیا،

اقتدار گیا اور جان سے بھی گیا۔ جب غلطی کا ازالہ کرنا چاہا تو معاملہ دور نکل چکا تھا۔آج بھی اپوزیشن نشانے پر ہے۔ اس کے خلاف مقدمات قائم ہو رہے ہیں۔ گرفتاریاں ہو رہی ہیں، ریفرنس پر ریفرنس داغے جا رہے ہیں۔ ای سی ایل پر نام ڈالنے کا شوق بھی کم ہونے میں نہیں آ رہا۔ اور تو اور، نوبت ایک قابل ضمانت ”جرم“ میں کیپٹن(ر)صفدر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کے لئے آئی جی سندھ کو ”اٹھا لے جانے “تک جا پہنچی ہے۔عوام کے مسائل حل نہیں ہو پا رہے، مہنگائی، بے روزگاری، بد امنی بے یقینی کے ساتھ مل کر اودھم مچانے کی صلاحیتیں حاصل کرتی جا رہی ہے،لیکن طاقت والے طاقت برائے طاقت کو اپنی طاقت بنائے ہوئے ہیں۔تاریخ پر نظر رکھنے والوں کے دِل ہیں کہ ڈوبتے جا رہے ہیں۔ یا الٰہی خیر ؎دیکھی ہیں بعد ”عشق“ کے اکثر تباہیاں ۔۔یہ تجربے کی بات ہے ہوتی ہے کم غلط۔۔

Leave a Comment