نامور صحافی محمود جان بابر بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔31 اکتوبر 2011 میں لاہور کے جلسے کے بعد پارٹی میں جہاں دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کے رہنما جوق در جوق شامل ہوتے رہے وہیں خیبر پختونخوا میں گذشتہ کافی عرصے سے مختلف حکومتوں کا حصہ رہنے والے پرویز خٹک نے بھی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور عمران خان کا اعتماد حاصل کر کے پارٹی کے سیکریٹری جنرل بن گئے۔
اس کے بعد جب سنہ 2013 میں پارٹی کو خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع ملا تو وزارت اعلیٰ کا تاج بھی پرویز خٹک کے سر سج گیا، انھی کی کارکردگی کے حوالے دے دے کر عمران خان نے ملک بھر سے ووٹ حاصل کیے لیکن بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ پرویز خٹک کی وزارت اعلیٰ کے دنوں میں عمران خان کو بھی بعض فیصلے منوانے میں مشکل پیش آئی۔بعض واقفان حال یہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے وزیراعظم عمران خان کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ’شریف‘ وزرائے اعلیٰ لگانے پڑے تاکہ مستقبل میں انھیں پارٹی ڈسپلن کو نافذ کرنے میں مشکل پیش نہ آئے؟پارٹی میں پرویز خٹک کے ناقدین کہتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان ہیں جن کی وجہ سے جہاں ایک وقت میں پارٹی کے مخالفین کے منصوبے کامیاب نہیں ہوئے وہیں پر اب خود پارٹی کے اندر بھی کسی نہ کسی لیول پر بے چینی کے ڈیرے ہیں۔جہانگیر ترین بھی آوٹ ہیں، ان کے بیٹے کو بھی ٹکٹ نہیں مل سکا۔ ایسے میں کون ہے جو وزیراعظم کے دائیں اور بائیں رہ کر انھیں احساس دلائے کہ پارٹی سینیٹ انتخابات سے سرخرو ہو کر ہی نکلے گی۔وزیرِ اعظم عمران خان کی بعض پریشانیوں میں پیپلز پارٹی اور مریم نواز کی جانب سے
عین سینیٹ انتخابات کے دوران عدم اعتماد کی تحریک لائے جانے کے بیانات نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ تحریک انصاف کی رہی سہی دانش اس چیلنج کو بھی حل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے کہ آخر وہ کون ہو سکتا ہے جن کے ساتھ رابطوں کی بدولت یہ اپوزیشن جماعتیں بظاہر اتنی پُراعتماد ہیں اور کہیں سینیٹ میں ٹکٹوں کے معاملے پر ناراض ہونے والے اور سائیڈ لائن کیے جانے والے اپنے لوگ اپوزیشن کے ان نعروں کو تقویت دینے کا باعث نہ بن جائیں۔مسلم لیگ ن کے ایک رہنما کا یہ بیان بھی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے جس میں وہ کہہ چکے ہیں کہ نظرنہ آنے والی کچھ قوتیں عمران خان کی پشت پر تھیں تو وہ اب ان کا ساتھ بھی دے سکتی ہیں۔ماضی کے انتخابات سے کئی گنا زیادہ اس بار سینٹ کے ٹکٹوں کے لیے دوڑ دھوپ اور لابنگ کا جو طوفان تحریک انصاف کے اندر سے اٹھا ہے اس نے کم از کم یہ بات تو ثابت کر دی ہے کہ اس جماعت پر ’ٹیپیکل پی ٹی آئی‘ کی جو مُہر لگی تھی وہ بالکل ٹھیک تھی۔پارٹی کے اقتدار کا عرصہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک ہر انتخابات کے دوران ٹکٹوں کے حصول کا بُخار مسلسل بڑھ رہا ہے
اور وہ جو کہتے تھے ہم صرف تبدیلی کے لیے پارٹی میں ہیں وہ بھی اب شرطوں پر اُتر آئے ہیں، حالت یہ ہے کہ ایک کو مناؤں تو دوجا روٹھ جاتا ہے۔ پارٹی قیادت کی حالت جاننی ہو تو یہ بات بالکل صادق آتی ہے کہ وہ اس وقت مینڈک تول رہے ہیں، دو کو پکڑ کر پلڑے میں ڈالتے ہیں تو تین کود کر بھاگ چکے ہوتے ہیں۔ملک کا ریگولر میڈیا، ٹی وی سکرینز اور اخبارات کے علاوہ سوشل میڈیا پر ہر دوسری پوسٹ پارٹی کے مختلف گروپوں کی جانب سے ’اپنے بندے‘ کوسینیٹ کا ٹکٹ دلانے کے لیے ہے۔ بات پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ عمران خان اس وقت اپوزیشن اور قوم سے زیادہ اپنے لوگوں کے نرغے میں بُری طرح پھنس چکے ہیں۔بقول پارٹی کے ایک ہمدم دیرینہ ’میں خود ان سے ملا ہوں، وہ اتنے خوش اور پُرجوش نہیں جتنا حکومت میں آنے سے پہلے اپوزیشن کے دنوں میں تھے۔ ہم جان چکے ہیں کہ وہ اپنوں کی بلیک میلنگ اور پریشر گروپس کے دباؤ کا شکار ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ سب ان کی بات مان لیں اورپارٹی بکھرے ناں۔‘وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خود وزیراعظم سینیٹ کے انتخابات میں بعض لوگوں کو کمزور معیار کی بنیاد پر پارٹی کا امیدوار بنائے جانے پر نالاں ہیں۔
عمران خان تو بلاشرکت غیرے پارٹی کے معاملات کو چلانے کے مختار ہیں؟ میرے سوال کے جواب میں وہ مسکرائے اورفوراً کہا ’اب ایسا نہیں ہے۔‘’بہت سے لوگ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ کام کر رہے ہیں لیکن پھر بھی وہ کئی محاذوں پر تقسیم ہیں۔ ان کے سامنے پارٹی ہے جو اس وقت کئی پریشرگروپس اور مخلص ورکرز کی توقعات کے بیچ میں پس رہی ہے۔ وہ گورننس کو بہتر کرنا چاہتے ہیں جو ہو نہیں پا رہی۔۔۔ اگر وہ صرف پارٹی ہی تک محدود رہتے اور پارٹی صرف خیبر پختونخوا کی حد تک ہی حکومت میں ہوتی تو عمران خان صوبے میں اپنی گذشتہ حکومت کے دوران حاصل ہونے والے تجربے کی وجہ سے اسے بہت اچھے طریقے سے سنبھال لیتے لیکن وفاق اورپنجاب میں گورننس کے ایشوز نے انھیں پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔‘عمران خان سے ملنے والے جس بھی پارٹی رہنما یا ناراضگی سے واپس رضامندی کی طرف آنے والے شخص سے وزیراعظم کی آج کی سب سے بڑی خواہش کے بارے میں پوچھا گیا ان کا جواب ایک ہی تھا کہ عمران خان کی زبان پر ایک ہی بات ہے کہ ’سب مل کر کھیلیں تاکہ ڈیلیور بھی کریں اور آگے جایا جا سکے۔