نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔واہ صاحب واہ کیا خوب گڈگورننس چل رہی ہے۔ ایک طرف وزارتوں کی ریوڑیاں بٹ رہی ہیں اور دوسری طرف مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لئے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑی جا رہی ہے۔ ہمارے وزراء ہر فن مولا ہیں، جس وزارت میں لگا دو، فٹ ہو جاتے ہیں، اب ہمارے شبلی فراز جنہوں نے شاید سائنس اتنی ہی پڑھی ہو جتنی ہم نے پڑھی ہے، مگر انہیں سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت سونپی جا رہی ہے۔
فواد چودھری جو سائنس و ٹیکنالوجی کے وزیر بن کر نت نئی سائنسی ایجادات کی خوشخبریاں سنا رہے تھے، انہیں دوسری مرتبہ اطلاعات کا وفاقی وزیر بنا دیا گیا ہے۔ یہ ان کی بڑی پرانی خواہش تھی کہ انہیں یہ وزارت دوبارہ ملے، اس خواہش کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اطلاعات کا وزیر نہ ہونے کے باوجود سب سے زیادہ پریس کانفرنسیں وہی کرتے تھے، وہ بھی سائنسی نہیں،بلکہ سیاسی موضوع پر۔ خیر یہ تو وزیراعظم عمران خان کا صوابدیدی اختیار ہے جسے چاہیں جو سونپ دیں، لیکن مہنگائی کے معاملے میں ان کا کوئی طریقہ، کوئی حکمت عملی اور کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہو رہی۔ مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے کوئی وزیر بھی نہیں بنایا ہوا کہ اس سے بندہ پوچھ ہی لے کہ بھائی کہاں سوئے ہوئے ہو،کیا کر رہے ہو؟ابھی کل ہی یہ خبر چھپی ہے کہ حکومت نے پچاس ہزار ٹن چینی درآمد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ مقصد اس کا یہ بتایا گیا ہے کہ ملک میں منافع خور گروپ چینی سستی نہیں ہونے دے رہا، اس لئے چینی درآمد کرکے عوام کو سستے داموں بیچی جائے گی، اسی دن ٹی وی چینلوں پر شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ترجمان کا یہ بیان بھی چل رہا تھا
کہ حکومت کی پابندیوں اور چھاپوں کے خوف سے ڈیلرز چینی نہیں اٹھا رہے اور شوگر ملوں میں چینی سٹاک کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔ یہ دہائی بھی دی تھی کہ چینی کی سپلائی رک جانے کے باعث وہ مالی مشکلات سے دوچار ہو گئی ہیں، بنکوں کے قرضوں کی واپسی، ٹیکسوں کی ادائیگی، مزدوروں کی تنخواہوں اور دیگر روزمرہ معاملات کے لئے ان کے پاس سرمایہ نہیں، جس کی وجہ ہزاروں افراد کے بے روزگار ہونے کا خطرہ ہے، مگر ساتھ ہی یہ پخ بھی لگا دی کہ چینی 80روپے کلو کے حساب سے نہیں دے سکتے، کیونکہ وہ 104روپے کلو تو خود مل مالکان کو پڑتی ہے۔80روپے کلو بیچیں تو انہیں کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ اب حکومت کے پاس تو اس کا وہی جواب ہے جو وزیراعظم عمران خان چند روز پہلے دے چکے ہیں، وہ کہتے ہیں اس شوگرمالکان نے کارٹل کرکے سات ماہ میں 140 ارب روپے زائد کمائے ہیں، یہ پیسہ عوام کی جیبوں سے نکلوایا گیا ہے، اس لئے شوگر کیس میں کسی کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ تو صاحبو! اس سارے ڈرامے میں پس ایک مرتبہ پھر عوام ہی رہے ہیں۔ مَیں جب خواتین کو چینی کے لئے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا دیکھتا ہوں تو اس نظامِ زر پر بہت غصہ آتا ہے۔
روزے کی حالت میں کورونا کے خوف سے بے نیاز گھنٹوں قطار میں لگ کر دو کلو چینی کا حصول کتنا شرمناک معاملہ ہے، وہ بھی شناختی کارڈ کا اندراج کرانے کے بعد۔مل مالکان اربوں روپے منافع تو کما سکتے ہیں، رمضان المبارک میں منافع کم کرکے چینی ملوں سے باہر لانے کو تیار نہیں، اُدھر حکومت بھی سخت اقدامات اٹھانے کے بعد مطمئن ہو کر بیٹھ گئی ہے۔ حالانکہ اسے شوگر ملز مالکان کے ساتھ بیٹھ کر کوئی درمیانی راہ نکالنی چاہیے۔ وہ حکومت کی منتیں کر رہے ہیں کہ ملاقات کا موقع دیا جائے، مگر کپتان کی سوئی اس نکتے پر اڑ گئی ہے کہ اب انہیں سبق سکھانا ہے۔ سبق ضرور سکھائیں، مگر ایسے نہیں کہ عوام چینی کے لئے خوار ہو کر رہ جائیں۔