اسلام آباد(نیوز ڈیسک)جب بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا گیا تو ان کی اہلیہ نصرت بھٹو اور بیٹی بے نظیر بھٹو کو سہالہ کے ریسٹ ہائوس میں نظر بند رکھا گیا تھا۔ ماں بیٹی کو بھٹو کی تدفین سے قبل اور فوری بعد کی رسومات میں شرکت کی اجازت نہ دی گئی۔ خطرہ یہ تھا کہ دونوں ضیا حکومت کے خلاف کوئی عوامی احتجاج ہی شروع نہ کردیں۔
جب کہ 4 اپریل 1979 کو اڈیالہ راولپنڈی میں بھٹو کی سزا پر عملدرآمد کے کم و بیش ایک ماہ بعد ضیا الحق کو نہ جانے کیا خیال آیا۔ انہوں نے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر پنڈی سعید مہدی، مقامی چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بریگیڈئیر راحت لطیف اور ایس ایس پی راولپنڈی جہانزیب برکی کو سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظربند نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے پاس ایک پیغام دے کر بھیجا۔تینوں افسران جب سہالہ ریسٹ ہائوس پہنچے تو نصرت بھٹو نے عدت کے باعث ملاقات سے انکار کردیا۔ 24 سالہ بے نظیر بھٹو ریسٹ ہائوس کے ڈرائنگ روم میں آئیں تو وہ باوردی بریگیڈئیر کو دیکھتے ہی مخاطب ہوئیں، جنرل تم نے میرے باپ کو زندگی سے محروم کر دیا ہے؟ راحت لطیف بولے، میڈم میں جنرل نہیں بریگیڈئیر ہوں، بے نظیر نے کہا اوہ تو کیا تمہیں میرے باپ کو سزا دینے کے انعام میں جنرل کے عہدے پر پرموٹ نہیں کیا گیا؟ راحت لطیف بولے، نہیں میڈم میرا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، جب آپ باہر آئیں گی تو آپ کو حقیقت کا خود پتہ چل جائے گا۔ بے نظیر نے راحت لطیف سے مزید گفتگو کرنے سے گریز کیا اور ان کے جواب کو نظر انداز کرتے ہوئے پولیس وردی میں ملبوس ایس ایس پی پنڈی جہانزیب برکی سے مخاطب ہوئیں اور بولیں آپ کا کیا تعارف ہے؟ برکی بولے میڈم میرا نام جہانزیب برکی ہے اور میں ایس ایس پی راولپنڈی ہوں۔
بے نظیر نے ان کا نام سنتے ہی غصے سے کہا، آپ وہی ہیں ناں جس نے میرے والد کو کمرۂ عدالت سے کھینچ کر نکالا تھا۔ برکی بولے جی میڈم مجھے چیف جسٹس کا حکم تھا۔دونوں افسران کے بعد اگلی باری سعید مہدی کی تھی۔ بے نظیر کے استفسار پر سعید مہدی نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی ہیں۔ ایک ٹھنڈی سانس کے بعد بے نظیر نے سعید مہدی سے کہا، ڈپٹی کمشنر صاحب اس وقت میرے اور آپ کے درمیان خدا ہے آپ مجھے ایمانداری سے بتائیں کہ کیا میرے والد کو بیہمانہ طریقے سے زندگی سے محروم کیا گیا ہے؟ بھٹو کے حوالے سے ان دنوں یہ بات مشہور تھی کہ انہیں فوجی حکومت نے سزا نہیں دی بلکہ بیمانہ طریقے سے زندگی سے محروم کیا گیا ہے۔ متجسس بے نظیر کا سوال سن کر سعید مہدی بولے، میڈم آپ کے والد کو سزا دی گئی ہے۔ بے نظیر یہ سنتے ہی شاید یقین اور عدم یقین کی کیفیت کا شکار ہوگئیں۔ مہدی بولے میڈم حکومت آپ کو بھٹو صاحب کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے لاڑکانہ بھیجنا چاہتی ہے۔ صدر مملکت نے اس مقصد کے لیے اپنا طیارہ دینے کی پیشکش بھی کی ہے۔ بے نظیر بولیں وہ طیارہ ضیاالحق کا نہیں میرے والد کا ہے جو انہیں شاہ فیصل نے تحفے میں دیا تھا۔ بے نظیر نے کہا وہ کہیں نہیں جارہیں۔
یہ کہہ کر بے نظیر رخصت ہونے لگیں تو سعید مہدی کے دل میں نجانے کیا آئی کہ انہوں نے بے نظیر سے کہا کہ بھٹو ایک عظیم رہنما تھے ان کی وفات پر انہیں خود اور پوری قوم کو بڑا دکھ ہوا۔ مہدی نے کہا کہ وہ بھٹو کی تعزیت کرنا چاہتے ہیں۔ بے نظیر نے مہدی کی طرف دیکھا اور چلی گئیں۔تینوں افسران واپس اپنے اپنے دفاتر کو چلے گئے۔ اگلے روز سعید مہدی کو آرمی ہاؤس سے پیغام ملا کہ’’جنرل صاحب یاد کررہے ہیں‘‘۔ تھوڑی دیر میں سعید مہدی جنرل ضیا کے سامنے بیٹھے تھے۔ ضیا الحق بولے، مجھے آپ نصرت بھٹو اور بے نظیر کے ساتھ ملاقات کا احوال سنائیں۔ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی نے ملاقات کی ساری کہانی سنا دی تاہم اس میں بھٹو کی وفات پر اظہار کیے گئے جذبات کا ذکر نہ کیا۔ضیا الحق نے سعید مہدی کی بات سنی اور کہا کیا آپ نے مجھے ساری کہانی بیان کردی ہے؟ مہدی بولے سر میں نے اپنی یادداشت کے مطابق ساری کہانی بیان کردی ہے۔ اس پر ضیا الحق نے ایک ٹیپ میز پر رکھی اور پلے کا بٹن دبا دیا۔ کمرے میں ٹیپ سے سعید مہدی کی بھٹو کے بارے میں کہے گئے الفاظ کی آواز گونجی اور ساتھ ہی ضیا الحق بولے، کیا یہ آپ کی آواز ہے؟ سعید مہدی پریشان ہوگئے اور بولے جی سر، میں ایک بیٹی کو دیکھ کر جذبات سے مغلوب ہوگیا تھا، سر آپ بھی تو جذباتی ہیں آپ بھی تو انہیں جذبات کے پیش نظر اپنا طیارہ دے رہے تھے۔ضیا الحق نے سعید مہدی کی طرف دیکھا اور کہا،’’آپ جائیے لیکن آئندہ اپنے سرکاری کام کی انجام دہی میں کبھی جذباتی نہ ہوں۔‘‘ بشکریہ نامور کالم نگار اعزاز سید