اسلام آباد(نیوز ڈیسک) اسے حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور۔۔۔۔ چوہدری نثار علی خان میاں نواز شریف کے بارے میں ’’آن دی ریکارڈ ‘‘ کوئی بات کہنے کے لئے تیارہیں اور نہ ہی میاں نواز شریف اپنی زبان کھول رہے ہیں جب میں نے میاں نواز شریف سے چوہدری نثار علی خان سے ’’ناراضی ‘‘کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ اس موضوع پر پھر کسی وقت بات کروں گا۔
جب کہ چوہدری نثار علی خان بھی کوئی بات کرنے سے گریزاں ہیں چوہدری نثار علی خان کا دوبارہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا کوئی امکان نہیں چوہدری نثار علی خان کی اسحٰق ڈار اور شہباز شریف کے ساتھ طویل رفاقت ضرور ہے لیکن پارٹی سے نکل جانے کے بعد ان کا مسلم لیگ (ن) کے کسی بڑے رہنما سے کوئی رابطہ نہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے جولائی 2018 ء کے انتخابات سے قبل ہی نواز شریف سے 34 سالہ رفاقت ختم کر دی تھی آخری مرتبہ انہوں نے لندن میں بیگم کلثوم نواز کے جنازے میں شرکت کی۔ تاہم وہ تعزیت کے لئے جاتی امرا ء گئے اور نہ ہی انہوں نواز شریف کی عیادت کی سیاسی حلقوں میں اسحٰق ڈار، شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان ملاقات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جارہا چوہدری نثار علی خان آزاد امیدوار کی حیثیت سے پنجاب اسمبلی رکن تو منتخب ہو گئے ہیں لیکن انہوں نے پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہیں اٹھایا۔ پچھلے چند ماہ سے چوہدری نثار علی خان کو ’’تخت لہور‘‘ پر بٹھانے کی ایک’’ تھیوری ‘‘پر کام ہوتا رہا لیکن سیاسی حلقوں میں یہ سوال موضوع گفتگو رہا کہ ایک نشست رکھنے والا سیاست دان ’’تخت لہور‘‘ پر کس طرح براجمان ہو سکتا ہے ؟
لیکن چوہدری نثار علی خان نے طشتری میں پیش کی جانے والی وزارت اعلیٰ کو محض اس لئے مسترد کر دیا کہ وہ پنجاب اسمبلی میں ’’لوٹا‘‘ ہونے کا طعنہ سننے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ اگر ’’ گھوڑا ‘‘ تیار ہوتا تو چوہدری نثار علی خان کو ’’تخت لہور‘‘ پر بٹھانے کی خواہشمند قوتوں کے منصوبہ پر عمل درآمد کے سامنے کوئی سیاسی قوت مزاحم نہ ہوتی اسکیم نمبر ایک کے تحت انہیں پنجاب میں تحریکِ انصاف کی حکومت کی قیادت سنبھالنا تھی۔ جس کے لئے وہ تیار نہیں ہوئے ۔ اس اسکیم میں وزارت اعلیٰ کے منصب کے خواہشمند افراد کو طاقت ور لوگوں کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑتا دوسری اسکیم کے تحت پنجاب اسمبلی میں سب کو ہی چوہدری نثار علی خان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا کر دیا جاتا ۔ ایک اور اسکیم بھی بنائی گئی کہ ’’ان ہائوس ‘‘ تبدیلی کے نتیجے میں چوہدری نثار علی خان کو مسلم لیگ(ن) کے کندھوں پر سوار ہو کر’’تخت لہور‘‘ پر بٹھادیاجاتا لیکن اس اسکیم کے عمل درآمد میں ان کی ’’انا‘‘ آڑے آگئی انہوں نے بھلے وقتوں بیمار نواز شریف کی عیادت کی اور نہ ہی ان کی اہلیہ کلثوم نواز کی وفات پر ان سے تعزیت کی بھلا وہ اقتدار کے حصول کے لئے کیونکر نواز شریف کے پاس جا سکتے تھے بہر حال ملکی سیاست کے نئے سیٹ اپ میں میاں شہباز شریف کی کوئی گنجائش بن گئی۔
تو اس اسکرپٹ کے مطابق چوہدری نثارعلی خان کے لئے پنجاب میں کوئی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں جس کے تحت کسی اسمبلی کے رکن کو مقررہ مدت میںحلف لینے یا استعفیٰ دینے کا پابند بنایا گیا ہو اس لئے تاحال چوہدری نثار علی خان نے حلف اٹھایا ہے اور نہ ہی استعفیٰ دیا ۔وزیر اعظم عمران خان عثمان بزدار کی پشت پر کھڑے ہیں اس کے باوجود پنجاب میں نیا انتظامی سربراہ لائے جانے کی افواہ ایک منصوبہ کے تحت گردش کر تی رہتی ہے۔ چوہدری نثار علی خان اس منصب کے حصول کی دوڑ میں شریک نہیں عمران خان سے ان کی دوستی چار عشروں پر محیط ہے لیکن وہ ان کے سیاسی ساتھی بننے پر تیار نہیں میرا چوہدری نثار علی خان سے مسلسل رابطہ رہتا ہے اور ان سے ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی ہیں ان کا ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ سے رابطہ بھی ہے اور چیدہ چیدہ سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں بھی کرتے رہتے ہیں سر دست وہ سیاسی امور پر محتاط انداز میںگفتگو کرتے ہیں انہوں نے اپنے تمام آپشن ’’اوپن‘‘ رکھے ہیں وہ کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں بنیں گے سیاسی دکان کی ’’منڈھیر‘‘ پر بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہے ہیں وہ تحریک انصاف میں شامل ہونے کی دعوت دینے والوں سے یہ سوال کرتے ہیں۔ اگرمیں تحریک انصاف میں شامل ہو جائوں تو سٹیج پر میری موجودگی میں عمران خان ’’شریف خاندان‘‘ کو لعن طعن کر رہے ہوں تو بتائیں میں وہاں کیسا لگوں گا؟ ۔ چوہدری نثار علی خان یہ بات برملا کہتے ہیں کہ پچھلے دوسال میں ملک کو بند گلی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے ہر ادارہ بند گلی میں کھڑا نظر آتا ہے وہ اپنے اصولوں پر کوئی ’’کمپرومائز ‘‘کرنے کے لئے تیار نہیں۔ تاہم یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس بات کا کسی کو کوئی علم نہیں ہے اور ہر کوئی انتظار کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ بشکریہ نامور کالم نگار محمد نواز رضا ۔