اسلام آباد(نیوز ڈیسک) تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں این اے 75 ڈسکہ کے حوالے سے کیس کی جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی ، دوران سماعت الیکشن کمیشن نے ہنگامہ آرائی اور بیلٹ باکس غائب ہونے سمیت اخراجات کی تفصیلات جمع کرائی ، جس ہر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دئیے۔
کہ الیکشن کمیشن کا تفصیلی فیصلہ اور جواب اہمیت کا حامل ہے ، نقشے کے مطابق 20 پریذائیڈنگ افسران صبح تک غائب تھے، تمام کشیدگی ڈسکہ کے شہری علاقےمیں ہوئی۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل شہزاد شوکت نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کے وکیل کا انحصار الیکشن کمیشن کی پریس ریلیز پرتھا ، جس میں آئی جی سے سیکریٹری ای سی پی نے رابطہ کیا ، مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار نے صبح 4 بجے 23 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ ووٹنگ کی درخواست دی ، صبح سوا 5 بجے 23 پولنگ اسٹیشنز کے فرانزک آڈٹ کی درخواست کی گئی ۔ دوسری درخواست میں ڈسکہ کے 36 پولنگ اسٹیشنز بھی شامل کیے گئے جب کہ ریٹرننگ افسرنے14پولنگ اسٹیشنز پردوبارہ ووٹنگ کی سفارش کی ، پولنگ اسٹیشن کے باہر دونوں جماعتوں کا 1،1شخص قتل ہوا ، فائرنگ کی وڈیوز کے بارے کچھ علم نہیں ، ویڈیوز کس علاقے کی ہیں کس نے بنائی تاریخ کا بھی معلوم نہیں ہے۔ جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ واقعات کی تحقیقات کی ذمہ داری حکومت پر تھی ، کیا آپ کہنا چاہتے ہیں ویڈیوز پر شہادتیں ریکارڈ ہونی چاہیےتھیں؟ اس پر وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ ایسی ویڈیو ز کے نتیجے میں درج مقدمات کی کوئی حیثیت نہیں ، سیکشن 9 کے تحت الیکشن کمیشن نے انکوائری کرانا تھی۔ این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے کی پاکستان تحریک انصاف کی استدعا پھر مسترد ہوگئی۔