اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل اکثر اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے خبروں میں رہتے ہیں۔ تاہم پیر کو جب وہ لاہور ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے لیے پہنچے تھے تو احاطے میں ان پر انڈے اور سیاہی پھینکی گئی۔
لاہور ہائی کورٹ آ کر شہباز گِل راہداری سے عدالت کی طرف جا رہے تھے ۔جب ان پر انڈے پھینکے گئے، جو ان کے ساتھ چلنے والے پولیس اہلکار کی چھتری پر لگے۔ اسکے ساتھ ہی ان کی جانب سیاہی بھی پھینکی گئی۔موقع پر موجود پولیس اہلکاروں نے شہباز گل پر سیاہی اور انڈے پھیکنے والے افراد کو حراست میں لے لیا۔مگر واقعے کے بعد شہباز گل نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان پر سیاہی پھینکنے والوں نے ’اپنے کالے کرتوتوں کی سیاہی پھینکی ہے۔‘واضح رہے کہ عدالت میں پیش ہونے سے قبل ٹوئٹر پر جاری ایک پیغام میں شہباز گل نے بتایا تھا کہ وہ پیر کو دو بجے لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوں گے اور انھیں پتا چلا ہے کہ مسلم لیگ ن کے ورکرز نے ان پر دھاوا بولنے کی تیاری کر رکھی ہے۔انھوں نے لکھا کہ ‘میں عمران خان کا سپاہی ہوں، عدالت آؤں گا، ڈرنے والا نہیں۔ سیاست کرنے پر یقین رکھتے ہیں طرح کی حرکتوں پر نہیں۔’وزیر اعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے پولیٹیکل کمیونیکیشن ڈاکٹر شہباز گل کے سیاسی کیریئر کے بارے میں تحریک انصاف کے اہم رہنما بھی کچھ زیادہ نہیں جانتے۔سنہ 2018 میں انتخابات کے بعد ایک دن ڈاکٹر شہباز گل نامی شخص کو وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کا ترجمان مقرر کردیا گیا۔
جب بھاگ دوڑ کر صحافیوں نے ان کا نمبر حاصل کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان دنوں وہ اپنی فیملی کے ساتھ ’امریکہ میں مقیم ہیں، چند دنوں میں پاکستان آ رہے ہیں اور پھر ملاقات ہوگی۔ ‘یہ تھی شہباز گل کی پاکستانی سیاست میں انٹری، یعنی پاکستان آمد سے قبل ہی وہ وزیر اعلی پنجاب کے ترجمان مقرر ہوچکے تھے اور انھیں عثمان بزدار کی امیج بلڈنگ کی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔شہباز گل کا نام گوگل کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے ملائیشیا کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور مختلف بین الاقوامی اداروں میں بطور وزٹنگ پروفیسر خدمات سرانجام دیں۔مختلف اداروں کی ویب سائٹس کے مطابق ڈاکٹر شہباز گل انٹرنیشنل مارکیٹنگ اور انٹرنیشنل بزنس کے مضامین پر عبور رکھتے ہیں۔اگرچہ ڈاکٹر شہباز گل تحریکِ انصاف کے شروعات کے ممبران میں سے نہیں تاہم ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے ان کا تعلق سنہ 2003، 2004 میں امریکہ میں قائم ہوا۔ان کی پی ٹی آئی میں باقاعدہ شمولیت 2017 اور 2018 میں الیکشن مہم کے دوران ہوئی۔شہباز گل کو خصوصی طور پر امریکہ سے بلوایا گیا اور ان کا بسیرا بنی گالا میں وزیر اعظم عمران خان کی رہائش گاہ میں ہی رکھا گیا۔
وہ انتخابی مہم کے دوران عمران خان کو ان کی تقاریر میں مدد کیا کرتے تھے۔انھیں بنیادی طور پر ایک محقق کی حیثیت سے وزیراعظم نے اپنے ساتھ رکھا اور جلسے کے لیے تقاریر کی تیاری میں ان کی مدد لی جاتی رہی۔اس کے بعد انھیں مختلف ٹاک شوز میں متعارف کروایا گیا جہاں اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لینا اور ان کے خلاف جارحانہ رویہ اپنانا ان کا خاصہ بن گیا۔جب تحریک انصاف کو 2018 کے انتخابات میں حکومت کا بنانے کا موقع ملا تو شہباز گل کو پہلا کام وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار کی معاونت سونپا گیا۔عثمان بزدار کو جس وقت وزیراعلیٰ پنجاب بنایا گیا تو اسی وقت سے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ پنجاب میں وزیراعلٰی کو چلانے کے لیے ان کے ساتھ ایک مضبوط بندہ ہونا چاہیے۔وزیر اعلی پنجاب کا ترجمان مقرر ہونے کے بعد ان کی سیاسی اننگز کا صحیح معنوں میں آغاز ہوا جہاں انھوں نے مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کو اپنا ہدف بنایا۔دیکھتے دیکھتے شہباز گل نے وزیراعلیٰ کی صدارت میں ہونے والے اجلاسوں میں بیورو کریسی اور کابینہ کے اراکین کے ساتھ جارحانہ رویہ اپنانا شروع کر دیا اور یہ تاثر جانے لگا کہ عثمان بزدار تو درحقیقت صرف نام کے وزیراعلیٰ ہیں، اصل کام تو شہباز گل کرتے ہیں۔کابینہ اور معمول کی میٹنگز کے اندر شہباز گل کے رویے سے پی ٹی آئی کے سینئیر رہنماؤں اور بیوروکریسی کو بہت شکایات تھیں اور یہ بات وزیراعلیٰ پنجاب نے بھی محسوس کی۔