اسلام آباد(نیوز ڈیسک) نامور کالم نگار نواز خان میرانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔قارئین کرام میری اس تحریر کا مقصد محض یہ ہے‘ کہ میں مزاجِ آمر جنرل (ر) مشرف کے قول و عمل کے واضح تضاد کو آپ لوگوں کے سامنے انصاف جمہور کیلئے پیش کرنا چاہتا ہوں جن کا مزاج یار جنرل یحییٰ اور جنرل رانی والی کہانی سے محض موافقت و مطابقت نہیں رکھتا تھا۔
بلکہ ان کا ظرفِ داد و کوش ان سے کہیں زیادہ بلند و ماروا تھا‘ حبیب بینک لمیٹڈ‘ اس کی آنکھ میں ہمیشہ کھٹکتا رہا اور لمیٹڈ لکھنا بھی اس کی بقاءکا ضامن نہ بن سکا۔حبیب بینک کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کے منافع سے جو اس قدر زیادہ ہوتا تھا کہ پاکستان کے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں صرف یہی اکلوتا ”کماﺅ پوت“ پورا کرلیتا تھا‘ مگر نہ جانے کن ”مصلحتوں“ کی بناءپر جنرل (ر) پرویز مشرف سابق صدر پاکستان نے بغیر سوچے سمجھے اس پورے بینک کو اٹھا کر پرنس آغا کریم خان‘ جن کی شہریت بھی پاکستان کی نہیں‘ ان کی شہریت مختلف ممالک کی ہے اور آج کل وہ پرتگال کے شہری ہیں‘ چونکہ ان کا مذہب بھی مختلف قسم کا ہے‘ اور ان کے مریدین‘ کیونکہ وہ خود کو روحانی پیشوا کہلاتے ہیں‘ پاکستان بلتستان چترال میں موجود ہیں۔ دنیا کے اس امیر ترین اور مالدار شخص کی جھولی میں جنرل مشرف نے حبیب بینک ڈال کر اسے اس کا مالک بنا دیا اور جن شرائط اور جس رقم پر جنرل مشرف نے حبیب بینک اس کے حوالے کیا‘ قارئین خدا گواہ ہے کہ اس رقم کا بندوبست آپ بھی کرسکتے ہیں اور میں بھی اپنی جائیداد بیچ کر کر سکتا تھا‘ بلکہ حبیب بینک کی یونین نے تو یہ بھی اعلان کیا تھا کہ اس رقم کا بندوبست ہم کر دیتے ہیں اور بینک کو چلا کر دکھا دیں گے۔
اور منافع کما کر بھی آپ کو دے دیں گے‘ مگر آمر مطلق نے کسی کی ایک بھی نہیں سنی اور بینک دے کر اسے کہا کہ پیسے تین ماہ کے بعد دے دینا‘ خریدار نے بینک سے ہی پیسے کما کردیئے۔ حبیب ینک کے ملازمین نے اپنے جائز حقوق اور اس حوالے سے حقوق العباد کی دہائی‘ سپریم کورٹ میں انتہائی دلسوزی سے دی مگر چیف جسٹس صاحب‘ سپریم کورٹ کے جسٹس صاحبان اپنی ملازمت گزار کر بالترتیب جاتے رہے مگر اس انسانی المیے کا تاحال فیصلہ نہ ہوسکا اور ریاست مدینہ کی انصاف پسند اور انصاف کے نام پہ قائم حکومت کے دور میں جن میں سے کئی مسائل اپنے جسم و جان کی بازی بھی ہار گئے لیکن چیف جسٹس صاحب اب وہ آپ سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ خدارا اس معاملے پہ چپ نہ ہوجائیں اور ان چپ چاپ اور غم ناک آنکھوں کے دیے انصاف دے کر روشن کردیں اور ملازمین اللہ کی عدالت میں نہ جانے پائیں۔جنرل یحییٰ اور جنرل رانی والی کہانی سے فرق صرف اتنا تھا کہ جنرل رانی دیسی کے بجائے جنرل رانی مکھرجی بدیشی نے لے لی تھی۔ مودی تو محض بغیر ویزے اور بغیر اطلاع کے ایک دفعہ پاکستان آ گیا تھا مگر اداکارہ رانی مکھرجی کو یہ سہولت جنرل مشرف کی مدت ملازمت تک حاصل رہی۔